<font face=”jameel noori nastaleeq”>
<div dir=”ltr” style=”text-align: right;”>
<div dir=”rtl” style=”text-align: justify;”><span style=”color: #000000;”><span style=”background-color: white; font-family: ‘Alvi Nastaleeq’, ‘Jameel Noori Nastaleeq’, ‘Urdu Typesetting’, ‘Alvi Lahori Nastaleeq’, Tahoma; font-size: 22px; line-height: 40px;”>
میرے مہمان
پارٹ۔65
آرسنکم جب کسی کو مدد کے لئے کہتا ہے تو اس کا انداز لپٹ جانے والا ہوتا ہے۔ اور ذرا نہیں سوچتا کہ میں کسی کو تکلیف دے رہا ہوں۔ مثلاً ایک بار ایک مریض نے مجھے ٹیلی فون کیا۔ ڈاکٹر صاحب میں ذرا جلدی آنا چاہتا ہوں آپ مجھے چاربجے دوا دے سکتے ہیں۔ میں نے کہا کلینک کا ٹائم تو پانچ بجے ہے۔ آپ پانچ بجے آجائیے گا۔ کہنے لگا پانچ بجے تو مجھے دکان کھولنی ہوتی ہے۔ گاہک آ جاتے ہیں، آپ پلیز ذرا جلدی کلینک پر آ جائیں۔ آپ نے دیکھا اس کا یہ انداز۔ Selfishnessاگر آپ اس کی ڈائری دیکھیں تو سینکڑوں ٹیلیفون نمبر لکھے ہوں گے۔
رات کو کون کون سی فارمیسی کھلی ہوتی ہے۔
کون ساڈاکٹر Available ہوتاہے۔
مارکیٹ کون سی کھلی ہوتی ہے۔
کون سے سی این جی کا پریشر ٹھیک ہوتا ہے۔
سیل کہاں لگی ہوئی ہے۔
کس موبائل کمپنی کا کون سا پیکج کہاں استعمال کیا جائے۔
کون سی گاڑی کس وقت کہاں کے لئے روانہ ہوتی ہے۔
ایمبولینس، Fire fighting والوں کا کیا نمبر ہے۔
ہر مکتبہ فکر کے لوگوں سے اور ہر ڈیپارٹمنٹ میں اس شخص نے لوگوں سے بناکر رکھی ہوتی ہے۔ کیونکہ کچھ پتہ نہیں کہاں کس شخص کو استعمال کرنا پڑ جائے۔پیٹھ پیچھے لو گوں کی غیبت کرنا آرسنکم کاخاصہ ہے اس کے لئے ریپرٹری میں جو لفظ استعمال ہوا ہے وہ ہے Mind: Slander disposition to ۔ یہ لو گ دوسروں کو مسائل اور پریشانیوں میں پھنسادیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔
مرزا صاحب،ہمارے ایک جاننے والے تھے فیصل آباد سے ان کا تعلق تھا نازک مزاجی میں میر تقی میر سے بھی دو ہاتھ آگے تھے۔اپنے مزاج کے خلاف ذرا سی بات ناقابل برداشت، ناراض ہو نے میں دیر نہ لگاتے۔تاہم انسٹرومنٹس کے شعبہ کے ماہر تھے۔ کئی بار (سعودیہ میں)کچرے کے ڈھیر سے پرانے ٹی وی، ٹیپ ریکارڈر، بجلی کے پنکھے وغیرہ اٹھا لاتے اور بڑے آرام سے مرمت کر کے کار آمد بنالیتے۔ ان کا معمول تھا کہ اگر آپ ان کے دروازے پر کال بیل دبائیں تو آنکھیں ملتے ملتے باہر نکلتے تھے۔یوں لگتا تھا جیسے سو رہے ہوں، سامنا ہو نے پر کال بیل دبانے والا معذرت کرتا، سوری مرزاصاحب! لگتا ہے آپ سو رہے تھے میں نے ناحق آپ کو ڈسٹرب کیااس مو قع پر مرزاصاحب کا جواب دو طرز کا ہوتا۔ اگر تو آنے والا مرزاصاحب کا من پسند و مطلوب شخص ہے تو مرزاصاحب کا جواب ہو گا، نہیں جناب ایسی کوئی بات نہیں، آئیے تشریف لائیے میں تو اٹھنے ہی والا تھا۔ آپ صحیح وقت پر آئے ہیں، میں تو خود آپ سے ملنا چاہ رہا تھا۔ مرزاصاحب نہایت خوش دلی سے پیش آتے اور اس کی خاطر تواضع کرتے۔اور اگر آنے والی شخصیت مرزاصاحب کے کسی کام کی نہیں ہے، مرزاصاحب اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو مرزاصاحب کے چہرے پر ناخوشگواری آتے دیر نہ لگتی۔ ان کا جواب ہوتا، ابھی آنکھ لگی تھی طبیعت ذرا ناساز تھی، رات بھر نیند نہیں آئی۔ اور یوں آنے والا اپنا سامنہ لے کر واپس چلا جاتا۔تھوجا کی مانندآرسنکم نے ہر ملنے والے اور جاننے والے کے لئے اس کی اہمیت اورضرورت کے مطابق الگ الگ پروٹوکول بنا رکھا ہوتا ہے۔
فاسفورس ایسا نہیں کرتا فاسفورس کا دل ایک ایسی سرائے ہے جس میں جس مسافر کا جب تک جی چاہے قیام کر سکتا ہے۔فاسفورس اور پلسٹیلا کی ٹیلیفون کالز بہت لمبی ہوجاتی ہیں۔ لیکن آرسنک اچھی طرح جانتا ہے کہ دومنٹ کی کال کو ایک منٹ پچاس سیکنڈ پر کیسے ختم کرنا ہے۔تا کہ اگلی کال کا بل نہ پڑجائے۔ اکثر مس کالوں پر گزارہ کرتا ہے۔ پبلک ٹیلیفون بوتھ میں پہلے پہل سکے استعمال ہوتے تھے۔ آرسنکم ایک ہی سکہ کو کنڈی لگا کر بار بار استعمال کرنے کا گرُ جانتا ہے۔بیرون ممالک جہاں پبلک ٹائلٹ کو استعمال کرنے کے لئے سکے استعمال ہوتے ہیں وہاں پر بھی ان لوگوں نے اپنے فارمولے لگا رکھے ہوتے ہیں۔ایک ساتھی اندر جاتا ہے اور دوسرا ٹائلٹ کے دروازے کو مکمل بند نہیں ہونے دیتا بلکہ اپنا پاؤں پھنسا کر کھڑا رہتا ہے۔یوں ایک ہی سکے کے عوض یہ دونوں ٹائلٹ کو استعمال کر لیتے ہیں۔موبائل پیکج سے یہ لوگ خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ہمارے ایک پیارے ساتھی جدہ سے پاکستان اپنے گھر پبلک بوتھ سے فون کیا کرتے تھے۔انہوں نے گھر والوں کو ہدایات جاری کی ہوئی تھیں کہ میرا فون جب بھی آئے گا اس میں السلام و علیکم، وعلیکم السلام پر وقت ضائع نہیں کرنا،جو بھی ٹیلیفون اٹھائے بجائے میری خیریت پوچھنے کے،فوراً گھر کی ضروری بات بتانا شروع کر دے اورمیرا حال پوچھنے پر وقت ضائع نہیں کرے(کیونکہ میں خیریت سے ہوں)۔ یوں وہ اکثر ایک ریال میں کال مکمل کر لیا کرتے تھے۔ جبکہ عام لوگوں کے دس، پندرہ ریال فی کال خرچ ہو جاتے تھے۔صبح صبح اخبار بیچنے والوں کے سٹال پر مفت اخبار پڑھنے والوں کے ہجوم میں آپ کو کئی آرسنک اور تھوجا ملیں گے۔
</div>
</div>