متحرم قارئین،ہم آپ کی خدمت میں مشہور ہومیوپیتھک ڈاکٹرمرزا انور بیگ کی کتا ب سے اقتباسات پیش کرتے رہیں گے۔
امید ہے کہ آپ کو پسند آئے گا۔
کتاب(ایک سرجن کا سفر)سے انتخاب(مرزا انور بیگ)
(پارٹ ۔29)
ہاں تو بات ہو رہی تھی کاتب اور کتابت کی۔نفسِ امّارہ کو لکھنے میں زیادہ دشواری پیش نہیں آئی چونکہ یہ میرا سبجیکٹ تھا۔وجہ یہ تھی کہ اکثر وبیشتر مریض اسی کے تھے مگر بولنے سے ڈرتے تھے۔ان دنوں ایسے امراض کو پوچیدہ ہی رکھا جاتا تھا،بولنا،لکھنا،چھپنا۔اتفاق سے ایک کاتب میرا مریض تھا۔اسے ایک گلٹی نکل آئی تھی تھوڑی کے نیچے۔اس کے ڈاکٹر نے جسے کینسر کی گانٹھ بتا کر اسے گویا موت کا فرمان دے دیا تھا،وہ ہومیوپیتھی سے ٹھیک ہو گیا۔جس اخبار کے دفتر میں وہ کام کرتا تھا اسی اخبار میں میرا کالم شائع ہوتا تھا،ڈاکٹر سے پوچھئیے نام سے۔اسی اخبار میں پہلے طبّی مضامین لکھا کرتا تھا کہ جو عوام میں مقبول ہوئے تھے۔جنس کے تعلق سے ایسے افراد کے جواب دینا معیوب تھا اسلئے میں نے اییک کتابچہ لکھ ڈالا اور اسے چھپوا کر مفت تقسیم کرنا تھا،ایسا ارادہ تھا۔تب کاتب،جو آج ایک مشہور صحافی ہے،کے کامیاب علاج نے یہ کیا کہ اس کے دفتر کے دوسرے ساتھی کاتبوں نے مل کر اسے کچھ ہی دنوں میں مکمل کر دیا تھا وگرنہ اس وقت کے کاتبوں کے بارے میں کچھ افراد کا خیال تھا کہ جس کوبتانے کے لئے ایک پرانی کہاوت،ناکوں تلے چنے چبانا،صحیح لگتی ہے۔
نفسِ امارہ کی رونمائی ڈاکٹر مینن کے ہاتھوں ہوئی تھی جو کہ میری پہلی کتاب تھی۔بعد کی اتنی ہیں کہ مجھے ان کی گنتی یاد نہیں۔ہوں گی چالیس اور ہو سکتی ہیں پثاس بھی۔امریکہ میں مجھے بلایا گیا تھا بستیار یونیورسٹی کے آلٹنیٹیو میڈیسن کے ایک پروگرام میں دعوت نامہ بھیج کر۔ چھوٹے چھوٹے واقعات ہیں جنہوں نے مجھے مشہور کیا مگر میں خود اپنے ملک میں خود اپنے آپ سے انجان تھا اس لئے کہ میری باتیں پیج در پیج الجھی ہوئی جو ہوتی تھی،کچھ اخباروں نے البتہ اہمیت دی تھی ۔ان کے تراشے ہیںیادگار کی شکل میں جن کو یہاں دیکھا جا سکتا ہے میری اس سوانح میں۔
ایڈز کی بیماری پر کہی گئی میری باتوں کو تب تسلیم نہیں کیا گیا اسی طرح ٹی بی کی اور آج بھی نہیں،دھیان سے سُنتے اور پڑھتے سب ہیں۔حیرت سے ان کیسوں کے نتائج دیکھتے ہیں جو اس طرز کے علاج سے ٹھیک ہوئے یا ٹھیک ہو سکتے ہیں
جاری ہے۔۔۔۔